Monday, June 1, 2009

یہ وقت بھی گذر جائے گا


 

کسی بادشاہ نے اپنے ملک سے تمام پڑھے لکھے، عقلمند اور عالم قسم کے لوگوں‌کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا مشورہ، منتر یا مقولہ ہے کہ کو ہر قسم کے حالات میں کام کرے، ہر صورتحال اور ہر وقت میں اس ایک سے کام چل جائے۔ کوئی ایسا مشورہ جو کہ میں اگر اکیلے میں ہوں‌اور میرے ساتھ کوئی مشورہ کرنے والا نہ ہو تب بھی مجھے اس کا فائدہ ہو؟تمام لوگ بادشاہ کی اس خواہش کو سن کر پریشان ہوگئے کہ کون سی ایسی بات ہے جو کہ ہروقت، ہر جگہ کام آئے؟ جو کہ ہر صورتحال، خوشی، غم، الم، آسائش، جنگ و جدل، ہار، جیت غرض‌کہ ہر جگہ فٹ ہو سکے؟ِکافی دیر آپس میں‌بحث و مباحثہ کے بعد ایک بوڑھے آدمی نے ایک تجویز پیش کی جسے تمام نے پسند کیا اور وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے۔انہوں نے بادشاہ کی خدمت میں ایک کاغذ پیش کیا اور کہا کہ اس میں‌ وہ منتر موجود ہے جس کی خواہش آپ نے کی تھی۔ شرط صرف یہ ہے کہ آپ اس کو صرف اس وقت کھول کر دیکھیں گے جب آپ اکیلے ہوں اور آپ کو کسی کی مدد یا مشورہ درکار ہو۔ بادشاہ نے اس تجویز کومان کر کاغذ کو نہایت حفاظت سے اپنے پاس رکھ لیا۔
 
 
کچھ عرصے کے بعد دشمن ملک نے اچانک بادشاہ کے ملک پر حملہ کردیا۔ حملہ اتنا اچانک اور شدید تھا کہ بادشاہ اور اس کی فوج کو بری طرح شکست ہوئی۔ فوج نے اپنے بادشاہ کے ساتھ ملکر اپنے ملک کے دفاع کی بہت کوشش کی لیکن بالآخر انہیں محاذ سے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ دشمن ملک کے سپاہی بادشاہ کے پکڑنے اس کے پیچھے لگ گئے اور بادشاہ اپنی جان بچانے کے لیئے گھوڑے پر بھاگ نکلا۔ بھاگتے بھاگتے وہ پہاڑ کے اس مقام پر پہنچ گیا کہ جہاں دوسری طرف گہری کھائی تھی اور ایک طرف دشمن کے سپاہی اس کا پیچھا کرتے قریب سے قریب تر ہوتے جارہے تھے۔اس صورتحال میں اسے اچانک اس منتر کا خیال آیا جو کہ اسے بوڑھے شخص نے دیا تھا۔ اس نے فورا اپنی جیب سے وہ کاغذ نکالا اور پڑھنا شروع کیا۔ اس کاغذ پر لکھا تھا کہ "یہ وقت بھی گذر جائے گا"بادشاہ نے حیران ہوکر تین چار دفعہ اس تحریر کو پڑھا — اسے خیال آیا کہ یہ بات تو بالکل صحیح ہے۔ ابھی کل ہی وہ اپنی حکومت میں سکون کی زندگی گزار رہا تھا اور تمام عیش و آرام اسے میسر تھا اور آج وہ دشمن سے بچنے کیلیئے بھاگتا پھر رہا ہے؟ جب آرام اور عیش کے دن گذر گئے تو یقینا یہ وقت بھی گذر جائے گا۔ یہ سوچ کر اسے سکون آگیا اور وہ پہاڑ کے آس پاس کے قدرتی مناظر کو دیکھنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں اسے گھوڑوں‌کے سموں کی آوازیں معدوم ہوتی سنائی دیں، شاید دشمن کے سپاہی کسی اور طرف نکل گئے تھے۔بادشاہ ایک بہادر آدمی تھا۔ جنگ کے بعد اس نے اپنے لوگوں کا کھوج لگایا جو آس پاس کے علاقوں میں چھپے ہوئے تھے۔ اپنی بچی کھچی قوت کو مجتمع کرنے کے بعد اس نے دشمن پر حملہ کیا اور انہیں شکست دے دی۔ جب وہ جنگ جیت کے اپنی اپنی مملکت میں واپس جارہا تھا تو اس کے ملک کے تمام لوگ استقبال کے لیئے جمع تھے۔ اپنے بہادر بادشاہ کے استقبال کے لیئے لوگ شہر کی فصیل، گھروں کی چھتوں غرض کہ ہر جگہ پھول لیئے کھڑے تھے اور تمام راستے اس پر پھول نچھاور کرتے رہے۔ہر گلی کونے میں لوگ خوشی سے رقص کررہے تھے اور بادشاہ کے شان میں قصیدے گا رہے تھے۔ بادشاہ بھی اپنے فوجی قافلے کے ہمراہ بڑی شان سے کھڑا لوگوں کے نعروں کا جواب دے رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ دیکھو لوگ ایک بہادر کا استقبال کیسے کرتے ہیں، میری عزت میں اب اور اضافہ ہوگیا ہے، اور کیوں‌نہ ہوتا، دشمنوں کو ماربھگانا کوئی اتنا آسان نہیں تھا اور خصوصا ایک مکمل شکست کے بعد۔یہ سوچتے سوچتے اچانک اسے اس کاغذ کے مضمون کا خیال آگیا "یہ وقت بھی گذر جائے گا"۔ اس خیال کے ساتھ ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ اپنے آپ پر غرور ایک ہی لمحہ میں ختم ہوگیا اور اس نے سوچا کہ اگر یہ وقت بھی گذر جائے گا تو یہ وقت میرا نہیں۔ یہ لمحے یہ حالات میرے نہیں، یہ ہار اور یہ جیت بھی میری نہیں۔
 
 
ہم صرف دیکھنے والے ہیں، ہر چیز کو گذر جانا ہے اور ہم صرف ایک گواہ ہیں۔ہم صرف محسوس کرتے ہیں۔ زندگی آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ خوشی اور غم کا بھی یہی حال ہے۔ اپنی زندگی کی حقیقت کو جانچیں۔ اپنی زندگی میں خوشی، مسرتوں، جیت، ہار اور غم کے لمحات کو یاد کریں۔ کیا وہ وقت مستقل تھا؟ وقت چاہے کیسا بھی ہو، آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔زندگی گذر جاتی ہے۔ ماضی کے دوست بھی بچھڑ جاتے ہیں۔ جو آج دوست ہیں وہ کل نہیں رہیں‌گے۔ ماضی کے دشمن بھی نہیں ہیں اور آج کے بھی ختم ہوجائیں گے۔ اس دنیا میں کچھ بھی کوئی بھی مستقل اور لازوال نہیں۔ہر چیز تبدیل ہو جاتی ہے لیکن تبدیلی کا قانون نہیں بدلتا۔ اس بات کو اپنی زندگی کے تناظر میں سوچیں۔آپ نے کئی تبدیلیوں کو زندگی میں‌دیکھا ہو گا، کئی چیزوں کو تبدیل ہوتے ہوئے مشاہدہ کیا ہو گا۔ آپ کی زندگی میں‌کئی بار غم اور شکست کے حالات آئے ہوں‌گے اور اسی طرح آپ نے کئی پرمسرت لمحات بھی گذارے ہوں‌گے۔ دونوں قسم کے وقت کو گذر جانا ہے، کچھ بھی مستقل نہیں ۔ ہم اصل میں‌کیا ہیں پھر؟ اپنے اصل چہرے کو پہچانیئے ۔ ہمارا چہرہ اصل نہیں ہے۔ اس نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جانا ہے۔ تاہم آپ کے اندر کچھ ایسا ہے کہ جو کبھی تبدیل نہیں ہوتا اور ہمیشہ ایسا ہی رہتا ہے۔ کیا چیز ہے جو کہ غَیر مُتغَیَّر ہے؟ شاید آپ کے اندر کا صحیح انسان۔ آپ صرف تبدیلی کے گواہ ہیں، محسوس کریں اور اسے سمجھیں ۔ 
اپنی زندگی کی منفی تبدیلیوں کو محسوس کریں اور اپنی ذات سے اس پر قابو پانے کی کوشش کریں - رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے اور رہنے والے ہمارے اعمال 
 
——- سوچیں —- اور عمل کریں............ ......... ...