
Sunday, October 25, 2009
AlAhsa, Saudi Arabia




Alahsa is located in southwest of Saudi Arabia near the borders of Bahrain. It is a shia majority and oil rich area. This is the place where US first found the smell of oil and established ARAMCO.
Gharnata, Al-Andalus, Spain
History and travel of Karak, Jordan
CAPRI ISLAND, ITALY




Above is my article on history of Capri Island, Italy, I visited in Sept / Oct 2000. At the time when I came across it, I knew nothing about it's history. I just followed Abbu's will that Shah Iran used to celebrate his vacations here and I thought we should go there. But History now has become my life....................... my passion............... and my love. So come with me on a journey of about 2000 years...
----------------------------------------------------------------------------------------
I remembered this from few years back when I read about Barbarossa for the first time:
Whence on the sea's horizon comes that roar?
Can it be Barbarossa now returning
From Tunis or Algiers or from the Isles?
Two hundred vessels ride upon the waves,
Coming from lands the rising Crescent lights:
O blessed ships, from what seas are ye come?
Can it be Barbarossa now returning
From Tunis or Algiers or from the Isles?
Two hundred vessels ride upon the waves,
Coming from lands the rising Crescent lights:
O blessed ships, from what seas are ye come?
(Zulkifl)
Friday, October 23, 2009
Madaian Saleh: A Historical site mentioned in Quran
Below is my article on history and travel of Madain Saleh. 400 KM from Medina which is mentioned in Quran as AlHajr.







Thursday, September 3, 2009
Friday, August 14, 2009
How To Remove Navbar In Blogger Blogs

You see a navigation bar on the top of every blog hosted at Blogger. With this navigation bar, you can search blogs, visit the next blog, sign in or create a new account. You can even flag a blog for posting some objectionable content.
One thing I like about WordPress.com blogs is that they don’t display any navigation bars at the top or at the bottom, but here at Blogger.com they don’t provide any option to remove it. I was hoping to see an option to remove this in the latest Blogger Draft features.
But who needs them when you can manually tweak it not to display the navigation bar.
How To Remove Navbar In Blogger Blogs
1. Open your Blogger dashboard.
2. Go to your blog’s Layout settings > Edit HTML
3. Look for:
/* Variable definitions
====================
4. And above that add:
#navbar-iframe { display: none !important; }
5. Save your settings and open your blog now. The navigation bar will be gone.
Here’s a sample blog that you can see without the navigation bar:http://freehostingoffers.blogspot.com/
National Anthem

Related Topics
1. National Anthem2. How the day proceeded
3. The Most Heard Song Ever!
4. Independence From The Eyes of Telenor
5. Happy Independence day from UltraSpectra
Wednesday, July 29, 2009
Wednesday, July 15, 2009
Congratulations Zunnurain
Khuda tum donoon aur khalid Bhaijan aur Bhabi ku khoosh rakhey.
Monday, June 1, 2009
یہ وقت بھی گذر جائے گا
کسی بادشاہ نے اپنے ملک سے تمام پڑھے لکھے، عقلمند اور عالم قسم کے لوگوںکو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا مشورہ، منتر یا مقولہ ہے کہ کو ہر قسم کے حالات میں کام کرے، ہر صورتحال اور ہر وقت میں اس ایک سے کام چل جائے۔ کوئی ایسا مشورہ جو کہ میں اگر اکیلے میں ہوںاور میرے ساتھ کوئی مشورہ کرنے والا نہ ہو تب بھی مجھے اس کا فائدہ ہو؟تمام لوگ بادشاہ کی اس خواہش کو سن کر پریشان ہوگئے کہ کون سی ایسی بات ہے جو کہ ہروقت، ہر جگہ کام آئے؟ جو کہ ہر صورتحال، خوشی، غم، الم، آسائش، جنگ و جدل، ہار، جیت غرضکہ ہر جگہ فٹ ہو سکے؟ِکافی دیر آپس میںبحث و مباحثہ کے بعد ایک بوڑھے آدمی نے ایک تجویز پیش کی جسے تمام نے پسند کیا اور وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے۔انہوں نے بادشاہ کی خدمت میں ایک کاغذ پیش کیا اور کہا کہ اس میں وہ منتر موجود ہے جس کی خواہش آپ نے کی تھی۔ شرط صرف یہ ہے کہ آپ اس کو صرف اس وقت کھول کر دیکھیں گے جب آپ اکیلے ہوں اور آپ کو کسی کی مدد یا مشورہ درکار ہو۔ بادشاہ نے اس تجویز کومان کر کاغذ کو نہایت حفاظت سے اپنے پاس رکھ لیا۔
کچھ عرصے کے بعد دشمن ملک نے اچانک بادشاہ کے ملک پر حملہ کردیا۔ حملہ اتنا اچانک اور شدید تھا کہ بادشاہ اور اس کی فوج کو بری طرح شکست ہوئی۔ فوج نے اپنے بادشاہ کے ساتھ ملکر اپنے ملک کے دفاع کی بہت کوشش کی لیکن بالآخر انہیں محاذ سے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ دشمن ملک کے سپاہی بادشاہ کے پکڑنے اس کے پیچھے لگ گئے اور بادشاہ اپنی جان بچانے کے لیئے گھوڑے پر بھاگ نکلا۔ بھاگتے بھاگتے وہ پہاڑ کے اس مقام پر پہنچ گیا کہ جہاں دوسری طرف گہری کھائی تھی اور ایک طرف دشمن کے سپاہی اس کا پیچھا کرتے قریب سے قریب تر ہوتے جارہے تھے۔اس صورتحال میں اسے اچانک اس منتر کا خیال آیا جو کہ اسے بوڑھے شخص نے دیا تھا۔ اس نے فورا اپنی جیب سے وہ کاغذ نکالا اور پڑھنا شروع کیا۔ اس کاغذ پر لکھا تھا کہ "یہ وقت بھی گذر جائے گا"بادشاہ نے حیران ہوکر تین چار دفعہ اس تحریر کو پڑھا — اسے خیال آیا کہ یہ بات تو بالکل صحیح ہے۔ ابھی کل ہی وہ اپنی حکومت میں سکون کی زندگی گزار رہا تھا اور تمام عیش و آرام اسے میسر تھا اور آج وہ دشمن سے بچنے کیلیئے بھاگتا پھر رہا ہے؟ جب آرام اور عیش کے دن گذر گئے تو یقینا یہ وقت بھی گذر جائے گا۔ یہ سوچ کر اسے سکون آگیا اور وہ پہاڑ کے آس پاس کے قدرتی مناظر کو دیکھنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں اسے گھوڑوںکے سموں کی آوازیں معدوم ہوتی سنائی دیں، شاید دشمن کے سپاہی کسی اور طرف نکل گئے تھے۔بادشاہ ایک بہادر آدمی تھا۔ جنگ کے بعد اس نے اپنے لوگوں کا کھوج لگایا جو آس پاس کے علاقوں میں چھپے ہوئے تھے۔ اپنی بچی کھچی قوت کو مجتمع کرنے کے بعد اس نے دشمن پر حملہ کیا اور انہیں شکست دے دی۔ جب وہ جنگ جیت کے اپنی اپنی مملکت میں واپس جارہا تھا تو اس کے ملک کے تمام لوگ استقبال کے لیئے جمع تھے۔ اپنے بہادر بادشاہ کے استقبال کے لیئے لوگ شہر کی فصیل، گھروں کی چھتوں غرض کہ ہر جگہ پھول لیئے کھڑے تھے اور تمام راستے اس پر پھول نچھاور کرتے رہے۔ہر گلی کونے میں لوگ خوشی سے رقص کررہے تھے اور بادشاہ کے شان میں قصیدے گا رہے تھے۔ بادشاہ بھی اپنے فوجی قافلے کے ہمراہ بڑی شان سے کھڑا لوگوں کے نعروں کا جواب دے رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ دیکھو لوگ ایک بہادر کا استقبال کیسے کرتے ہیں، میری عزت میں اب اور اضافہ ہوگیا ہے، اور کیوںنہ ہوتا، دشمنوں کو ماربھگانا کوئی اتنا آسان نہیں تھا اور خصوصا ایک مکمل شکست کے بعد۔یہ سوچتے سوچتے اچانک اسے اس کاغذ کے مضمون کا خیال آگیا "یہ وقت بھی گذر جائے گا"۔ اس خیال کے ساتھ ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ اپنے آپ پر غرور ایک ہی لمحہ میں ختم ہوگیا اور اس نے سوچا کہ اگر یہ وقت بھی گذر جائے گا تو یہ وقت میرا نہیں۔ یہ لمحے یہ حالات میرے نہیں، یہ ہار اور یہ جیت بھی میری نہیں۔
ہم صرف دیکھنے والے ہیں، ہر چیز کو گذر جانا ہے اور ہم صرف ایک گواہ ہیں۔ہم صرف محسوس کرتے ہیں۔ زندگی آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ خوشی اور غم کا بھی یہی حال ہے۔ اپنی زندگی کی حقیقت کو جانچیں۔ اپنی زندگی میں خوشی، مسرتوں، جیت، ہار اور غم کے لمحات کو یاد کریں۔ کیا وہ وقت مستقل تھا؟ وقت چاہے کیسا بھی ہو، آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔زندگی گذر جاتی ہے۔ ماضی کے دوست بھی بچھڑ جاتے ہیں۔ جو آج دوست ہیں وہ کل نہیں رہیںگے۔ ماضی کے دشمن بھی نہیں ہیں اور آج کے بھی ختم ہوجائیں گے۔ اس دنیا میں کچھ بھی کوئی بھی مستقل اور لازوال نہیں۔ہر چیز تبدیل ہو جاتی ہے لیکن تبدیلی کا قانون نہیں بدلتا۔ اس بات کو اپنی زندگی کے تناظر میں سوچیں۔آپ نے کئی تبدیلیوں کو زندگی میںدیکھا ہو گا، کئی چیزوں کو تبدیل ہوتے ہوئے مشاہدہ کیا ہو گا۔ آپ کی زندگی میںکئی بار غم اور شکست کے حالات آئے ہوںگے اور اسی طرح آپ نے کئی پرمسرت لمحات بھی گذارے ہوںگے۔ دونوں قسم کے وقت کو گذر جانا ہے، کچھ بھی مستقل نہیں ۔ ہم اصل میںکیا ہیں پھر؟ اپنے اصل چہرے کو پہچانیئے ۔ ہمارا چہرہ اصل نہیں ہے۔ اس نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جانا ہے۔ تاہم آپ کے اندر کچھ ایسا ہے کہ جو کبھی تبدیل نہیں ہوتا اور ہمیشہ ایسا ہی رہتا ہے۔ کیا چیز ہے جو کہ غَیر مُتغَیَّر ہے؟ شاید آپ کے اندر کا صحیح انسان۔ آپ صرف تبدیلی کے گواہ ہیں، محسوس کریں اور اسے سمجھیں ۔
اپنی زندگی کی منفی تبدیلیوں کو محسوس کریں اور اپنی ذات سے اس پر قابو پانے کی کوشش کریں - رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے اور رہنے والے ہمارے اعمال
——- سوچیں —- اور عمل کریں............ ......... ...
Wednesday, May 27, 2009
Subscribe to:
Posts (Atom)