Friday, September 23, 2016

تیز ترک گامزن منزل ما دور نیست

​تیز ترک گامزن منزل  ما دور نیست ​

ہم  رات تقریباً  آٹھ  بجے امیگریشن سے فارغ ہوے. حسن کا خیال تھا کے رات غرغدا (Hurgada) میں ہی قیام کیا جاۓ اور آرام کر کے کل اگلی منزل یعنی الا قصر شہر کی طرف کوچ کیا جائے لیکن اس سے ہمارا ایک پورا قیمتی دن ضا یع ہو جاتا .  اس لئے  طے یہ پایا کے آگے نکلا جاۓ.  . الا قصر قاہرہ سے کوئی ٥٠٤ کلومیٹر(ہوائی فاصلہ) جنوب میں اور غرغدا سے ٢١٠ کلومیٹر.ہمارا خیال تھا کہ ہم بآسانی اگلے دوسے تین گھنٹے میں الا قصر پہنچ  سکتے تھے پھر تاخیر چہ مانی درد؟
 کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر ہم کوئی گیارہ بجے غرغدا سے نکلنے میں کامیاب ہوے. معلوم ہوا رات کے اس پہر الا قصر کے لئے براہ راست ٹرانسپورٹ ملنی مشکل ہے.ٹیکسی والے جہاز کا کرایا مانگ رہے  تھے. ہم نے ان سے معذرت کر کے قنا کے لئے ما ئکروبس پکڑی جو خطّے  کا مرکزی شہر ہے اور القصر سے کوئی ساٹھ کلومیٹرز کے فاصلے پر ہے. 
  
کراچی جیسی  سڑکیں اور  کراچی کی منی بسوں جیسا ہی ڈرائیور، اس خطرناک حد تک تیز رفتار ڈرائیونگ سے حظ  اٹھاتے ہوے ہم رات تین ساڑھے تین بجے قنا پوھنچے  تو بچے اور حسن کے علاوہ ہم بھی تھکن سے چور ہو چکے تھے. تھکن کی ایک بڑی  وجہ قوالی اور پاپ میوزک کے ملاپ سے پیدا ہونیوالی وہ تیز میوزک تھی  جس سے ما ئکروبس کا ڈرائیور پتہ  نہیں لطف اندوز ہو رہا تھا یا  نیند سے بچاؤ کے لیے  استعمال کر رہا تھا. 

 قنا کے سونے بس اسٹینڈ پر ایک ٹیکسی ڈرائیور کے علاوہ دور دور تک ہمارے استقبال کے لئے کوئی موجود نہیں تھا. ہم نے عاجزی سے مجبور ہو کر اس استقبال کو غنیمت جانا اور پچاس مصری پاؤنڈ کے عوض الاقصر کے مشرقی کنارے کی طرف  عا زم  سفر ہوے.

قنا سے الا قصر کے سفر میں دوران  نیل سے نکلی ہوئی لا تعداد نہریں ہماری ہم رکاب تھیں.پورے چاند کی روشنی میں انکے کنارے گھنے کھیت نیل کی مٹی  کی زرخیزی کا پتہ  دے رہے  تھے. سڑک  پر دور دور تک کوئی گاڑی  نظر نہیں آ رہی تھی مگر حسنی مبارک کی  تصا ویر جا بجا مصری قوم کی اپنی  ڈکٹیٹر سے محبّت  کے  ناقابل تردید ثبوت  کے طور پرنظرآ رہی تھیں  تھیں. یہ محبّت صرف مشرق وسطیٰ کے ہی لیڈرز کے حصّے میں آتی ہے ورنہ امریکا اور یورپ کےعوام  کو اسکا کیا ذوق؟

 ٹیکسی کی بند کھڑکیوں سے بھی سردی اپنے وجود کا احساس دلا رہی تھی. سونے کے لئے ایک آرآمدے بستر کی ضروررت شدّت سے محسوس ہو رہی تھے اور ہم اپنی منزل الا قصر کے قبل دید مقامات کے بجاے نیوبیا اوئیسس ہاسٹل  کے بارے میں سوچ رہے تھے جہاں ہم نے کمرہ بک کروا رکھا تھا. دل ہی دل میں ہم اپنے ایڈونچر کی خاطر بچوں اور حسن کو اس طرح بے آ رام کرنے پر پشیمانی بھی محسوس کر رہے  تھے.

آج ہم ان سطور کو تحریر کرتے وقت یہ سوچ رہے  ہیں کے غرغدا سے الا قصر کے اس سفر کے دوران اس ویران رات میں ہمارے ساتھ کوئی حادثہ بھی پیش آ سکتا تھا؟ ٹیکسی ڈرائیور اگر کسی مقام پر ہمیں لوٹنے کی کوشش کرتا تو الله کے سوا ہمیں بچانے والا کون تھا؟ 

یا اگر قنا کے بس اسٹاپ پر وہ واحد ٹیکسی والا موجود ہی نہ ہوتا اور ہمیں وہیں صبح  کرنی پڑتی. ایڈونچر سے بھرپور ہمارے سابق تجربات کا نچوڑ یہ ہے کے الله اپنے بندوں کا ان سے بڑھ کر خیال رکھنے والا ہے. وہ ہمارے لئے محفوظ راستہ کہیں نہ کہیں سے نکل لیتا ہے. ایسے کے ہم آنے والی مشکلات کا اندازہ بھی نہیں کر پاتے اور اسکا حل تیّارہوتا ہے.

مصر عمومی طور پر سیاحوں کے لئے محفوظ ملک سمجھا جاتا ہے کم از کم ٢٠٠٧ میں یہ بہت محفوظ تھا حالانکہ  شرم الشیخ، مملوک دور کی تعمیر کردہ  قاہرہ کی خان الخلیلی کے علاوہ الا اقصر  کے مغربی کنارے پر خاتون فرعوں ہیچپسٹ  کے مندر پر بھی اس سے پیشتر دہشت گرد حملے ہو چکے تھے لیکن اسکے باوجود ہم نے الا قصر سے اسکندریہ تک مصر کو مغربی ممالک سے زیادہ محفوظ پایا. اور یہی مغربی سیاحوں کی راے  ہے جو مصر کا سفر کر چکے ہیں. یہاں تک کے فل وقت  مغربی ٹورسٹ ویب سائٹس ٹریپ ایڈوائزر اور ورچوئل ٹورسٹ اکیلی خواتین سیاحوں کے لئے بھی مصر کو محفوظ قرار دیتی تھیں گو انھیں مناسب ڈریس کوڈ وغیرہ کا مشورہ دیا جاتا ہے.حال ہی میں  یہی مشورہ انڈیا کے ثقافت کے وزیر نے  تاج محل دیکھنے  آگرہ آنے والی  مغربی خواتین کو بھی دیا تو ایک شور سا مچ گیا کے وزیر صاحب انھیں برقع پہنانے کی کوشش کر رہے  ہیں.  فرانس میں تو ویسے ہی برکینی بحث نے ساری  دنیا کے میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے. یہ موضوع  پھر کبھی سہی.

فجر سے کچھ قبل ہم الاقصر پھنچنے میں کامیاب ہوے.شہر دریاے نیل کے مشرقی کنارے پر ہے اور فرِاعنہ   کے مندر اورزیر زمین  مقبرے  مغربی کنارے پر.مگر شہرکے بیچوں بچ  الا قصر کا مندر دور فراعنہ  کی یاد تازہ کرنے موجود ہے اور مندر کے اندر قرون وسطیٰ  کی ایک مسجد بھی.  شہر کو اندھیرے نے گھیر رکھا تھا مگر پھر بھی الا قصر کے عالی شان مندر کے  دیو ہیکل ستون دور سے ہی اپنے وجود کابھرپور  احساس دلا رہے  تھے. ہمارا دل بلیوں اچھلنے لگا. ہم عرصہ  ایک سال سے جن کھنڈرات کی خاک چھاننے  کے لئے مچل رہے  تھے وہ آج نظروں کے سامنے تھیں. 

    شا رع   فرید پر واقعہ نیوبیا اوئیسس  ہاسٹل 
ہاسٹل ڈھونڈنے کے چکر میں ہم نے چھوٹے سے شہر کے  کوئی تین چکّر لگا لئے. فجر کے وقت تھوڑی روشنی پھیلنے پر دو نوجوان بڑے بڑے  پروفیشنل کیمرے لئے  الا قصر کے مندر کےباہر نظر آے مگرشا رع فرد کا پتہ ندارد . آخر کر نائٹ ڈیوٹی کرنے والے ایک گارڈ نے ہماری رہنمائی کی اور ہم وہاں پھنچنے میں کامیاب ہوے جہاں سے ہم دو دفعہ ہم پہلے بھی گزر چکے تھے. 

پتلی مگر لمبی سی گلی اورآ س پاس  ہو کا عالم.نیوبیا اوسس ہاسٹل آپکا دوسرا  گھرکا نیون سائن شیشے کے دروازے پراندھیرے میں بھی جگمگا رہا. ٹرانسپرنٹ دیوار سے اندر جھانکا . نہ آدم نہ آدم زاد. پتہ نہیں ہمارے خوف نے د رو دیوار کو ویران کر دیا تھا یا غلطی ہماری اپنی تھی جو بے وقت شہر میں داخل ہوے. کھٹکھٹانے پر ایک سیاہ  فام لڑکا آنکھیں ملتا باہر آیا. انگریزی میں یہ بتانے پر کے ہم فون پر ہاسٹل بک کروا چکے ہیں ہمارے مندرجات نوٹ کرنے کے بعد بغیر کچھ کہے ہمارا سامان اٹھا کر اپر لے گیا. چوتھے فلور پر پھنچ کر کمرہ کھولا. کمرہ دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی. وال تو وال کا رپٹ،کلف لگی  سفید چادروں  میں ملبوس  بیڈ، صاف و شفاف تولئے، ہمیں اور کیا چاہیے تھا؟ گو بلڈنگ پرانی تھی اور ہاسٹل کی ظاہری حالت اچھی نہ تھی مگر بڑی  تعداد میں مغربی سیاحوں کی آمد اور قیام کے سبب ان ہاسٹلوں کو سروس کا معیار  بہتر بنانا پڑتا ہے. الا قصر شہر بلکہ سارے مصر میں میں ایسے کئی  بیک پیکرز ہاسٹلز ہیں. ہم نے نیٹ پر ریویؤز کی بنیاد پر اس ہاسٹل کا سلیکشن کیا تھا. 

محمّد ہمارا سامان ر کھ کر واپس جا رہا تھا کہ ہم نے آواز دے کر ناشتے کے بارے میں دریافت کیا. ناشتہ صبح آٹھ بجے اور کچن ؟ ہم نے بچوں کی دودھ کی بوتلیں دیکھایں ہماری  چار  سے سات سالہ تینوں  بیٹیاں خیر سے فیڈر سے ہی دودھ پیتی تھیں. . وہ ہمیں چھت پر لے گیا. وسیع روف ٹاپ، نیوبیا کے روایتی رنگوں کے امتزاج سے سجائی  گئی تھی . افریقی انداز کا اوپن ایئر ریسٹورنٹ - فرش سے کوئی ڈیڑھ فٹ  اونچا کشادہ ٹی وی لاؤنج، دبیز قالین اور  بھا ری بھرکم کشن سے مزیّن. شیشے کی دیوار والا چھوٹا سا فرج جس میں شراب کی بوتلیں جھانک رہی تھیں. یاد آیا کہ ہم حجاز کی سر زمین چھوڑ کر افریقہ میں داخل ہو چکے ہیں. 

غنیمت کچن کا فریج امل خبا ئیث سے پاک تھا. جیلی کے پیکٹ، ڈبل روٹی، دودھ، اور ناشتے کا سامان تازہ پھل وغیرہ وافر مقدار میں. محمّد سے پوچھ  کر ہم نے ڈبل روٹی کے کچھ ٹکرے، جیلی کے پیکٹ اور پھل وغیرہ اٹھاۓ تا کہ  پیٹ کی آگ کو کچھ تو ٹھنڈا کر سکیں جو سا ری رات سفر کے بعد اب شدّت سے  گڑگڑا رہی تھی. واپس کمرے میں آ کر دودھ بچوں کے حوالے کیا اور ہم نے اور حسن نے دو چار لقمے زہر ما ر کئے اور سونے لیٹ گئے.

صبح کی روشنی کے ساتھ نیچے بازار کا شور بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلند ہوتا گیا اور اسکی مناسب مقدار کمرے کی واحد کھڑکی کے زریعہ اوپر پھنچتی رہی لیکن ہم اس سے بےنیاز ڈھیٹ بن کر صبح دس بجے تک اپنی نیند پوری کرتے رہی.

بچوں کو اٹھانے کے بعد ناشتے کے لئے او پر گئے تو ایک کورین  لڑکی کو محمّد کے ساتھ تیزی سے ناشتہ تیار کرتے پایا . ناشتے میں آملیٹ ، تازہ پھل جیلی اور چاے . ہم نے بھی اگلے پچھلے سارے بدلے نکا ل ڈالے . سفر سے بچوں کی بھوک کھل چکی تھی اور وہ بھی اوپن ایئر ڈائننگ سپیس سے لطف اندوز ہو رہی تھے.               
  
ناشتے کے دوران ہالینڈ سےآی ہوئی دو سیاح خواتین سے گفتگو رہی جو قریب ہی ایک تخت پر بیٹھی مزے سے دھوپ سینک رہی تھیں. ایک نے بتایا کے وہ  پچھلے سال بھی مصرآی  تھی  اور صحراۓ سینا کے علاقے میں گھومتی رہی تھی.اسکا کہنا تھا کے دھا ب نامی قصبے میں مسلسل شیلنگ ہوتی رہتی تھی.  صحراۓ سینا اسرائیلی باشندوں کے لئے١٥ روز کے لئے  ویزا فری ہے یعنی مصر کا حصّہ ہوتے ہوے بھی انھیں اسکا ویزا لینے کی ضروررت نہیں . یہ س ١٩٧٩ کی مصر اسرائیل معاہدےکیمپ ڈیوڈ ایکارڈ کی ایک شرط تھی جسکے مطابق اسرائیل نے صحراۓ سینا مصر کو واپس کر دیا تھا. شرم الشیخ کا ساحلی شہر جو صحرا سینا کی تکون کی نوک پر آباد ہے اسی  اسرائیلی قبضے کی یادگار ہے اور دراصل یہودیوں ہی نے اسے ریز ورٹ کی شکل دی جہاں آج دنیا بھر کے سربراہان حکومت کونفرنسین منعقد کرتے ہیں اور اپنا فارغ وقت اینجوے کرتے ہیں. 

اسلام کی طرح یہودی اور عیسائ  مذہب میں صحراۓ سینا کو مذہبی اہمیت حاصل ہے. یہود کواس لئے کے وہ فرعو ن کی غلامی سے آزادی کے بعد ٤٠ سال یہاں گھومتے رہی اور عیسائیت میں اس لئے کے عیسائ مذہب کی قدیم ترین خانقاہیں یہان وا قع  ہیں جہاں رومیوں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر عیسا یی راہبوں نے ڈیرہ ڈالا. حضرت موسیٰ  کو نبوّت بھی کہتے ہیں یہیں ملی مگر یہودیوں کی ایک نئی  تحقیق کے مطابق وہ پہاڑ جہاں حضرت  موسیٰ کو خدا سے ہم کلام ہونے کا موقع ملا  داراصل مدین یعنی موجودہ شمالی سعودی عرب میں ہے. قرآن اور دوسرے آسمانی صحیفوں میں واقعہ تو مذکور ہے مگر اصل تاریخ اور جگہ کا  تعین مشکل ہے. 

   

No comments: