Friday, September 23, 2016

حیرت کدے میں چند روز​ .. بحر احمر سے بحر روم تک - دیکھہ  ذرا کرتار کے کھیل

Sunset at Red Sea at the back of my house, Duba, Tabuk Region, Northern Saudi Arabia


 دیکھہ  ذرا کرتار کے کھیل
 
 آوارہ گردی کا یوں تو  ہمیں بچپن بلکہ  شیر خوارگی کی عمر سے 
​ہی 
 ​
شوق تھا.  اسکول کے زمانے میں  آوارہ گرد کی  ڈائری  پڑھی تو یہ دو
​آ 
تشہ ہو گیا اور ابن بطوطہ  بننے کے شوق نے ہمیں انگریزی اور اردو کا
​ سفر  suffer ​
خوب کرایا.  ہمارے  مالی حالات کبھی قابل
​ ​
رشک نہ رہے مگر وہ  جو کہتے ہیں
​ع ​
 دل والوں کی دور پہنچ  ہے ظاہر کی اوقات نہ  دیکھہ 
 
 انگریزی کا محاورہ when there  is a will there is a way   یعنی جہاں چاہ وہاں راہ  ہمارے اوپر کچھہ  زیادہ 
​​ہی
 صادق آتا چلا گیا. 
​اسی ​
 ​
 شوق کے  سبب سن ٢٠٠٠  میں  بذریعہ قاہرہ یورپ کے سفر کا موقع ملا.
 
بحر احمر کو  پار  کر کے مصر پہنچنے  کا ہمارا خواب بھی بہت پرانا تھا. سن ١٩٩٦ میں زمانہ  طالب علمی میں اپنے عمرے  کے سفر کے دوران مکّہ مکرّمہ میں بڑی تعداد میں مصریوں  کو دیکھا تو معلوم ہوا 
​کہ
 ​
 یہ بحری جہاز کے ذریعہ عمرے  اور حج کی ادایگی کے لیے آتے ہیں. نقشہ کھنگالا تو معلوم  ہوا سعودی عرب کی بندرگاہ  ینبوع   سے مصر کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں. اسی وقت سے یہ خواہش بیدار ہوئی کے بحر احمر کو 
​پار
 کر کے سنّت موسیٰ  پر عمل  کی سعادت  حاصل کی  جاے
​. ​
 گو انکے تعاقب میں فرعون کی فوج تھی اور ہمیں کوئی ایسی مجبوری لاحق نہ تھی. ایک عشرے بعد یہ خواہش کچھ اس طرح تکمیل کو پہنچی کے مشت الہی  نے ہمیں بحر عرب کے ساحلوں سے  مملکت سعودیہ کے  مصر سے  قریب ترین مقام میں 
​پہنچا دیا 
.
 
حسن کو سعودی منسٹری آف ہیلتھہ میں ایک اچھی آفر ہوئی  جو حجاز کی سرزمیں پر ہمارے رہائش اختیار کرنے کی دیرینہ  خوہش کی تکمیل کا سبب بھی بنی اور سنّت موسیٰ پر عمل کی  بھی.حسن
​ 
کی تعیناتی گو تبوک میں ہوئی تھی مگر انکی روانگی کے بعد علم ہوا کے اصل پوسٹنگ   تبوک شہر میں نہیں   بلکہ ایک قریبی ساحلی شہر میں ہے. انٹرنیٹ سے رجوع کیا ------- قریب ترین ساحلی شہر   ضبا أ لشمال  جو کے بندر گاہ ہی ہے اور عام طور سے مصر کے شہر غرغدا اور اردن کی بندر گاہ عقبہ  کے لیے جہاز آپریٹ ہوتے ہیں. مکّہ اور مدینے سے فاصلے کا جایزہ لیا تو معلوم ہوا  کے مدینہ کے مقابلہ میں بیت المقدس (یروشلم )  سے فاصلہ قدرے کم. گو مقبوضہ فلسطین پر اسرایلی قبضے کے سب بیت المقدس کا سفر پاکستانی پاسپورٹ  پر    تقریبآ  ناممکن خصوصا اس صورت میں کے آپ سعودی عرب میں ملازمت
​ اور ​
 رہائش رکھتے ہوں. اور یوں ہم نومبر ٢٠٠٦ میں
​ 
 اپنے   (ٹیلی کام) PHD کونامکمّل چھوڑ کر
​آی بی اے (IBA) کی تدریسی زمداریوں  سے
 
​ایک سال کی طویل رخصت پر
 ​
بچوں سمیت  مملکت کی شمالی سرحد پر  واقع اس چھوٹے  سے شہر میں آ پہنچے.  کوئی پچاس ساٹھہ ہزار کی آبادی کا خوبصورت سا شہر اور ساحل پر واقع ہمارے  گھر کی کھڑکیوں سے بحر احمر کا نظارہ.  ہم نے خواب  میں بھی کبھی  بحر احمر کو اپنے گھر کے پچھلے صحن میں نہیں دیکھا تھا. کراچی کے مقابلے میں خوب کھلی کھلی   سڑکیں  صاف پانی  اور  تازہ  ہوا. 
 
اب ضبا   پہنچ کر نہ  آئ  بی  اے  کے  لیکچر تیار  کرنے کی مصروفیت  نہ خوفناک   اساینمنٹس  نہ  کلاس میں پہنچنے کی جلدی اور نہ  منتھلی ایگزام  کی تیاری
​،​
 نہ دقیق  ریسرچ پپیرس  اور نہ پریزینٹشنز اور 
​نہ ہی ​
   کانفرنسس . یعنی ہم یک جنبش طیارہ  درس و  تدریس کی  ذمہ داریوں   سے فارغ ہو گئے تھے. 
​حسن شہر کے واحد چیسٹ اسپیشلسٹ تھے اور آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کے علاوہ بھی مسلسل کال پر رہتے. یکایک معمول میں تبدیلی سے ہمیں مستقل بےخوابی رہنے لگی. کہاں کراچی میں  سونے کا وقت نہیں ملتا تھا اور یہاں رات گزرنا مشکل ہو گیا.
 
 
راتوں کو انٹرنیٹ کی تلاوت ہمارا معمول بن گئی.
 
تاریخ کا مطالعہ شروع کیا  تو معلوم ہوا یہ علاقہ تاریخی طور پر  مدین کا حصّہ  رہا ہے.  حضرت موسیٰ مصر سے پہلی مرتبہ  ہجرت  کے بعد یہیں مقیم  ہوے.  گو مدین کی جغرافیای حدود  کا آغاز دریاۓ اردن  سے ہوتا تھا .  شامی مصنف ڈاکٹر شوق الخلیلی کی ترتیب کردہ اطلس القرآن  وغیرہ کے مطالعہ اور خصوصا  اس علاقے کا قرآن  میں تذکرہ ہونے کے سبب ہماری دلچسپی   ارض قرآن میں بڑھتی چلی گئی  جو جغرافیائی  لحاظ سے ہمیں گھیرے ہوۓ تھا.  ہمارا سارا سال اردن مقبوضہ فلسطین اور اس سے آگے شام ترکی  اور بحر احمر کے پار مصر کی سیاحت کے خواب دیکھتے گزر گیا. مقبوضہ فلسطین، اردن اور مصر کی سرحد کوئی تین سو کلومیٹر شمال میں اور مکّہ اور مدینہ جنوب میں- دونوں آٹھ سو کلومیٹر کی مسافت پر. ان میں مصر اور اردن جو ہم سے صرف تین سو کلو میٹر کے فاصلے پر تھے کی سیاحت کا زیادہ اشتیاق رہا. 
​ایک سعودی چینل پر
 ​
مصر کی  ایک  ٹریول ڈاکومنٹری میں جنوبی مصر میں موجود فراعئنہ کے مقابر اورعا لی شان مندر دیکھ کر ہمارا دل للچانے لگتا. 
 
حسن ابتدا میں بچوں کے ساتھہ 
​بیک پیکنگ ٹرپ 
 کے لئے راضی نہیں تھے انکا کہنا تھا کے کہ سیاحت کا شوق مجھے بھی ہے مگر میں تمہاری طرح دیوانہ نہیں ہوں. اب ہم کیا جواب دیتے انشا جی  پہلے ہی
​ہمارے بارے میں
 کہہ 
​گئے 
 ہیں
​.​
 
ع 
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ 
​کیا 
 

بدقّت تمام حسن کو مصر  
​کی 
 اس آوارہ  گردی کے لئے راضی 
​کیا
  اور اس سے بہت قبل ہم کامیابی کی امید پر 
ضبا سے غرغدا  کے بحری سفر -- مصر کے قابل دید  مقامات  کے تاریخی تذکرہ  اور سیاحتی احوال وغیرہ کا اپنا ہوم ورک  تقریبا مکمّل کر چکے تھے. سفر کا پلان بھی تیار
​ہی
 تھا جس کے مطابق 
ضبا  سے
​ ​
غرغدا وہاں سے تقریبا چار سو کلو میٹر کی مسافت پر سوڈان 
​کی ​
 ​
 سرحد سے قریب فراعنہ کے عہد وسطیٰ اور عروج کے مرکز حکومت الا قصر
​،​
  الا قصر  سے قاہرہ اور قاہرہ سے اسکندریہ اور پھر غرغدا واپسی شامل تھے.
​ ​
لیکن سمندر پار کے   مختصر سفر سے پیشتر نو سو کلومیٹر دورجدّ ہ جا کر ویزا لینا بھی ضروری تھا.  


No comments: